اجمالی تعارف

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو! وہ خواب ہیں ہم

سراج العارفین ، شہبازطریقت حضرت علامہ ابوالبیان پیر محمد سعیداحمدمجددی رحمۃ اللہ علیہ ایک ہمہ صفت موصوف انسان تھے جن کا شمار عالم اسلام کے نابغہء روزگارعلمائے شریعت ، عرفائے طریقت اور خطبائے ملت میں ہوتاہے ۔توحید الٰہی پر ایمان آپ کی بندگی کا اثاثہ اور عظمت رسالت پرایقان آپ کی زندگی کا خاکہ تھا ۔ آپ فقر غیور کے ترجمان اور عشق جسّور کے نگہبان تھے۔ سادگی وپرکاری آپ کا مزاج اور بے خودی وہوشیاری آپ کی معراج تھا۔ آپ رعنائی وزیبائی کا منبع اور دلبرائی وپارسائی کامرقع تھے ۔ آپ جمال و کمال کا حسین سنگم اور اخلاص وللہیت کا عظیم مجسمہ تھے ۔ آپ صوفیاء کے لئے سراپا ادب و نیاز، علماء کیلئے مروّت وایثار اور عامۃ الناس کے لئے شفقت وپیار کی آبشارتھے۔

نگاہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پر سوز

یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے

شریعت وطریقت کے جامع ہونے کی بدولت آپ نے لوگوں کے چہروں کو نور سنت سے مزین اورسالکوں کے دیدۂ ودل کو نور طریقت سے منور فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ بعداز وصال بھی آپ کے آستانے پر رندوں کی دھوم اورعاشقوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اقبال مرحوم نے کیا خوب کہا

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں

فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مردِ خلیق

قدرت نے آپ کی ذات ستودہ صفات کو گوناں گوں خوبیاں مرحمت فرمائی تھیں ۔بلاشبہ آپ شریعت کے عالم بھی تھے اور طریقت کے حامل بھی … سنت کے عامل بھی تھے اور شیخ کامل بھی…عاشق رسول اللہ بھی تھے اور مجاہد فی سبیل اللہ بھی … مایہ ناز خطیب بھی تھے اور بلندپایہ ادیب بھی … کتاب وسنت کے حامی بھی تھے اور شرک و بدعت کے ماحی بھی … مردفقیر بھی تھے اور پیرروشن ضمیر بھی …غرضیکہ

آپ حسن صورت اور حسن سیرت کا حسین امتزاج تھے۔ اپنی وضع قطع اور جاذب نظر شخصیت کی وجہ سے سب سے نمایاں اور نرالے دکھائی دیتے تھے ۔ بقول اقبال مرحوم

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں

خاندانی پس منظر

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ اور حکمت بالغہ سے بنی نوع انسان کو باہمی تعارف کے لئے مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں تخلیق وتقسیم فرمایا،قوموں کی قیادت اور خاندانوں کی سیادت کے لئے ہمیشہ عالی گھرانواں کے افراد کا انتخاب فرمایا تا کہ خلق خدا اپنے جھگڑوں کی ثالثی اور معاملات کی رہنمائی کے لئے ان کی طرف رجوع کریں۔

حضرت ابوالبیان رحمۃ اللہ علیہ کا خاندان مذہبی شرافت اور دنیوی نجابت کی وجہ سے اپنے علاقے میں معروف تھا۔مقبوضہ کشمیر میں واقع ضلع راجوری کے ایک گائوں رانی بڈھیتر کی نمبرداری اور روحانی سرداری آپ کے والد گرامی قدر کے پاس تھی۔جو ایک عالم باعمل صوفی منش اور مدرس مزاج بزرگ تھے کہ جنہوں نے ہزارہا لوگوں کو قرآن پڑھایا بلکہ حضرت ابوالبیان کے برادر اکبر چوہدری محمد اسماعیل مرحوم نے فقہ حنفی کی مشہور کتاب شرح وقایہ کادرس اپنے والد محترم سے ہی لیا تھا۔

آپ کے اجداد میں حضرت میاں عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ (خلیفہ آستانہ چرار شریف جموں کشمیر)کی روحانی پیشوائی اور پیری مریدی کا کشمیر کے تقریباً ۴۰اضلاع میں شہرہ تھا۔ کہ جن کی پالکی کو عقیدت مند قریہ قریہ شہر شہر اٹھائے پھرتے تھے یوں بے شمار مخلوق اُن کی حسنات وبرکات سے فیضیاب ہوئی

آپ کاسلسلہ نسب جلیل القدر صحابیٔ رسول حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔جو نہایت وجیہہ وشکیل اور حسین وجمیل شخصیت کے مالک تھے۔ان کی بارعب اور پروجاہت شخصیت کی وجہ سے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کوبادشاہوں کے پاس سفارت کے لئے بھیجا کرتے تھے۔سیدنا جبریل امین علیہ السلام جب کبھی لباس بشری میں بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضرخدمت ہوتے تو اکثر حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں متشکل ہوتے تھے غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کے فضل وکمال اور حسن وجمال کی جھلک حضرت ابوالبیان میں نمایاں نظر آتی تھی۔ ولنعم ما قیل

ان کی ذریت کا ہر ذرہ نہ کیوں ہو آفتاب

سر زمینِ حسن سے نکلی ہے یہ کانِ جمال

آپ کے برادر اوسط حضرت صوفی محمد ادریس نقشبندی مدظلہٗ نے ایک مرتبہ آپ سے حضرت دحیہ رضی اللہ عنہ کی طرف نسبی انتساب کی بابت دریافت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہمیں مراقبہ میں حضور امام ربانی سیدنا مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمارا سارا شجرہ نسب بیان فرمایا تھا لیکن ہمیں حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کا نام نامی یاد رہ گیا ہے (واللہ اعلم بحقیقۃ الحال)نیز آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جہاں ہمیں دیگر علماء وصلحاء سے فیض پہنچا ہے وہاں اپنے آباء واجداد کے فیوض و برکات سے بھی حظ وافر ملا ہے ۔ والحمد للہ علیٰ ذالک

ولادت وتربیت

آپ بوقت فجر بروز جمعۃ المبارک۱۹۴۳ء کشمیر جنت نظیر میں حضرت مولانا لعل دین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں متولد ہوئے۔آپ کی والدہ ماجدہ خدا ترس،نیک سیرت اور صاحب درد خاتون تھیں جو عہد رضاعت میں آپ کو عارف کھڑی میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی لوریاں سنایا کرتی تھیں۔یوں والدین کے آغوش ولایت اور حسن تربیت کی بدولت آپ کو خود آگہی،حق شناسی اور فقرودرویشی ورثے میں ملی تھی۔بقول اقبال مرحوم

یہ حق آگاہی ، یہ خوش گوئی ، یہ ذوق معرفت

یہ طریق دوستی ، خود داری و تمکنت

اس کے شاہد ہیں کہ اُن کے والدین ابرار تھے

با خدا تھے ، اہل دل تھے ، صاحب اسرار تھے

جب مملکت خدا دادپاکستان معرض وجود میں آگیا تو ایک رات آپ کے والد مرحوم کو مولائے کائنات سیدنا علیٰ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے خواب میں ارشاد فرمایا

بچوں کو لیکر یہاں سے چلے جائو

غلبہ نیند کی وجہ سے آنکھ لگ گئی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوبارہ فرمایا

یہاں سے چلے جائو…

حب الوطن من الایمان کی وجہ سے اسی کش مکش میں تھے کہ سو گئے تیسری مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چھڑی مارتے ہوئے غضبناک لہجے میں فرمایا جاتے کیوں نہیں۔

آپ کے والد محترم فرمایا کرتے کہ ہم بادل نا خواستہ اپنے اہل وعیال کو لے کر ابھی گائوں سے باہر ہی نکلے تھے کہ ہندوگماشتوں نے گائوں پر ہلہ بول دیا انہوں نے قتل وغارت اور لوٹ کھسوٹ شروع کردی۔یوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تلقین وہدایت پر ہم بحفاظت ۱۹۴۸ء میں ضلع جہلم کی تحصیل سرائے عالمگیر کی مشرقی جانب واقع گائوں اورنگ آباد میں سکونت پذیر ہوگئے۔آپ کے والد محترم آپ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کرتے تھے کہ اس بچے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں ہجرت کا حکم فرمایا اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے دین متین کی خدمت کا کام لے گا ۔

تحصیل علم

قرآن مجید اور سکول کی تعلیم کے بعد آپ نے وطن عزیز کے نامور اور جید علماء کرام سے اکتساب علم کیا

محدث کبیر علامہ غلام رسول رضوی شارح بخاری،مترجم مکتوبات علامہ محمد سعید نقشبندی وغیرہم جیسے اکابر علماء سے حصول علم کے بعد تنظیم المدارس کے تحت الشہادۃ العالمیہ (ایم اے عربی واسلامیات)کا امتحان پاس کیا شیخ القرآن علامہ محمد عبدالغفور ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ سے دورۂ قرآن پڑھا۔امام اہلسنت علامہ سیدا حمد سعیدکاظمی رحمۃ اللہ علیہ سے سند حدیث حاصل کی ۔

باطنی انتساب

آپ کو سوزوگداز اور ادب ونیاز ورثہ میں ملا تھا۔تحصیل علم کی خاطر قیام لاہور کے دوران قدوۃ الکاملین سیدنا علی بن عثمان ہجویری(داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ) کے مزار پر انوار پر قطب الاولیاء حضرت خواجہ صوفی محمد علی رحمۃ اللہ علیہ (خلیفۂ خاص آلومہار شریف) سے ملاقات ہوئی جو مادرزاد ولی اور بلند پایہ صاحب حال صوفی تھے ان کی نگاہ ولایت نے پہلی ہی نظر میں جو ہر قابل اور گوہر نایاب کو پہچان لیا اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت فرمالیا شیخ کامل کی روحانی توجہات نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں آپ کو سلوک نقشبندیہ مجددیہ طے کروا کر خرقۂ خلافت سے نوازا اور شہباز طریقت کا لقب عطا فرمایا۔

آپ کے مرشد گرامی زبدۃ الفقراء حضرت خواجہ صوفی محمد علی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کل روز قیامت خدا نے پوچھا اے محمد علی!دنیا سے کیا لائے ہو تو میں محمد سعید کا ہاتھ پکڑ کر بارگاہ ایزدی میں پیش کردوں گا۔

حاصلِ عمر نثارِ رہ یارے کردم

شادم از زندگیٔ خویش کہ کارے کردم

سلاسل طریقت کا سنگم

آپ کی روحانی پرواز،باطنی استعداد اور علمی مزاج کے پیش نظر اندرون ملک اور بیرون ملک کے ممتاز ومقتدر علمائے راسخین اور عرفائے کاملین نے دیگر سلاسل مقدسہ (چشتیہ،قادریہ،سہروردیہ اور شاذلیہ وغیرہا)کے فیوض وبرکات اور خرقۂ ہائے خلافت واجازت سے نوازا ۔یوں آپ کی ذات گرامی تمام سلاسل طریقت کے برکات وحسنات کی جامع قرار پائی،چند علماء و صوفیاء کے اسماء مبارکہ حسب ذیل ہیں۔

  • خطیب الاسلام صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ رحمۃ اللہ علیہ (وارث مسند آلومہار شریف سیالکوٹ)
  • پیر طریقت حضرت پیر محمد فضل شاہ رحمۃ اللہ علیہ(آستانہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ چورہ شریف ضلع اٹک)
  • پیر طریقت خواجہ غلام فرید شاہ رحمۃ اللہ علیہ (آستانہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ نتھیال شریف ضلع اٹک)
  • پیر طریقت صاحبزادہ سید محمد انور شاہ گیلانی مدظلہٗ(آستانہ عالیہ قادریہ سدرہ شریف ڈیرہ اسماعیل خاں)
  • غزالیٔ زمان علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمۃ اللہ علیہ(ملتان)
  • شیخ القرآن علامہ محمد عبدالغفور ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ(وزیرآباد)
  • شیخ الشیوخ حضرت العلام شیخ ابوالنور شاذلی رحمۃ اللہ علیہ (دمشق)
  • پیر طریقت صاحبزادہ سید عاشق حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ(آستانہ عالیہ سرہند شریف انڈیا)

حسن خطابت

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو سماعت وبصارت جیسی نعمت غیر مترقبہ مرحمت فرمائی ہے اس لئے وہ نشیلی اداؤں کی دید سے متاثراور سریلی نواؤں کی شنید سے محظوظ ہوتا ہے ۔ ۱۲ربیع الاول کے مبارک موقعہ پر آپ نے اپنے مرشد گرامی قدر حضرت خواجہ صوفی محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت بابرکت میں دعا کی درخواست کی حضرت خواجہ نے ارشاد فرمایا

بیٹا تم پر تقریر نازل ہوا کرے گی

چنانچہ اسی روز شہر کے ۱۲ مختلف مقامات پر آپ نے ایمان افروز اور باطل سوز خطاب فرمایا،جس کی وجہ سے پورے شہر میں آپ کی خطابت کا شہرہ ہو گیا سلطان سلاطین اقالیم سخن صاحبزادہ سید فیض الحسن رحمۃ اللہ علیہ کی ۲۵سالہ رفاقت اور مرشدگرامی کی بشارت سے آپ کو میدان خطابت میں عالمگیر شہرت وپذیرائی حاصل ہوگئی۔

آپ کی خطابت کی جولانی اورسلاست وروانی کو دیکھ کر شیخ الاسلام خواجہ قمرالدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ(آستانہ عالیہ سیال شریف سرگودھا)نے ابوالبیان کا لقب عطا فرمایا جو آپ کے اسم گرامی کا جزولازم ہو کر رہ گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول میں ڈوبی ہوئی آواز،محبت بھرالہجہ وانداز ،سخن دل نواز، تجنیس الفاظ ،مطالب کا سیلاب ،مترادفات کی دل نشینی،استعارات آفرینی اور اشارات وکنایات کا وافر استعمال آپ کی خطابت کے ایمان افروز عناصر ہیں جوآپ کے عمیق مطالعہ اور شرح صدر کا بین ثبوت ہیں۔

تبلیغ وارشاد کے لئے گوجرانوالہ کا انتخاب

شہرِ گوجرانوا لہ کی تاریخ کو اگربنظر غائر دیکھا اور پرکھا جائے تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ چند نفوس قدسیہ کے علاوہ اہل نظر نے اسے اپنی تبلیغی وروحانی سرگرمیوں کا مرکز بنا نے سےاحتراز کیا ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کی زمین مردم خیز اور زرخیز نہیں تھی۔یہاں کے باشندے ادب و نیاز اور سوز و گداز سے نا آشنا تھے، یہاں تو کسی ایسے ابوالوقت اورزبردست صاحب ِتصرف مرد کامل کی ضرورت تھی جونہایت اُولو العزمی اور ثابت قدمی سے اپنی پاکیزہ سیرت اور دل آویز شخصیت کے ذریعے لوگوں کے ہوش و خرد اور قلب و نظر کو شکار کرکے بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چلے ۔ باطنی تصرفات اور روحانی توجہات سے دلوں کی زمین میں بے با کی وبے ادبی کی خود رو جڑی بوٹیوں کو تلف کرکے ایمان ومحبت کا بیج بودے ۔ اپنے اسلوب وانداز اور کانوں میں رس گھولتی آواز سےمحبت الٰہی ل اور عشق نبوی اکو لوگوں کے من میں اُتار دے کہ لوگوں کے قلوب واذہان تو حید ورسالت اور محبت وولایت کے فیضان سے سرشار ہو جائیں ۔اس کا کردار وگفتار اور لب ولہجہ کچھ ایسا ہو ۔

بات کرتا ہے کہ خوشبو کو بدن دیتا ہے

اس کا لہجہ تو گلابوں کو دہن دیتا ہے

قسامِ ازل نے مذکورہ اوصاف وکمالات سے متصف کرکے آقا ئے ولی نعمت ، سراج العارفین شارح مکتوبات امام ربانی حضرت علامہ ابوالبیان پیر محمد سعید احمد مجددی رحمۃ اللہ علیہ کو اہالیانِ گوجرانوالہ کی قسمت بدلنے کیلئے گوجرانوالہ میں متعین و مامور کر دیا ۔

چنانچہ حضرت ابوالبیان رحمۃ اللہ علیہ کی پرخلوص دعوت اور فکر انگیز خطابت نے لوگوں کے دل و دماغ بدل دئیے ۔بالخصوص آپ کا کتاب و سنت کی تعلیمات کو مجددی افکارو انداز میں پیش کرنا پُر امن انقلاب کا شعور دیتا ہے جس کی صدائے باز گشت نصف صدی سے اندرون ملک اور بیرون ملک برابر سنائی دے رہی ہے۔

عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کا قیام

ملت اسلامیہ کی عالمگیر اکثریت مذہب مہذب اہل سنت وجماعت کے پاکستان میں فکری انتشاراور سیاسی زوال کی وجہ سے آپ نے فروری۱۹۸۰ء میں عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کی بنیاد رکھی جس کے قیام کا بنیادی مقصد تعلیمات کتاب وسنت کی ترویج واشاعت اور اسلامی انقلاب کے لئے امت مسلمہ کی تنظیم وتربیت کرنا ہے تاکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے نئے دور کا آغاز ہوسکے۔

اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں ترے دور کا آغاز ہے

دراصل یہ ادارہ تعلیمات نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور افکار مجددیہ رحمۃ اللہ علیہ کی روشنی میں مسلمانوں کی علمی تعمیر اور فکری تشکیل پر مامور ہے اس لئے آپ نے ’’مجلس دین و دانش‘‘کے عنوان سے گوجرنوالہ کی سطح پر مختلف مقامات پر قرآن وسنت کی تبلیغ اور اسرار طریقت کی تفہیم کے لئے دروس کا سلسلہ شروع فرمایا۔تا کہ نسل نوکو اسلام کی آفاقی تعلیمات سے آشنائی اور صوفیاء کرام کے اسلوبِ تبلیغ سے آگاہی حاصل ہو۔حضرت امام ربانی سید نا مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی انقلابی تعلیمات اور روحانی فرمودات سے عوام الناس کو روشناس کروانے کے لئے عشرۂ امام ربانی کا آغاز فرمایا جو آپ کے جانشین محترم عالمی مبلغ اسلام شیخ طریقت علامہ صاحبزاہ پیر محمد رفیق احمد مجددی مدظلہٗ کی زیر قیادت تاہنوز نہایت کامیابی کے ساتھ جاری ہے جو سنت وشریعت کی تعمیل وتبلیغ اور قلبی تطہیر وتنویر کا خوبصورت ومؤثر ذریعہ ہے۔

کتب دینیہ کی ترتیب وتدوین ،تصنیف وتالیف اور مساجد ومدارس کی تعمیر و تشکیل بھی ہو رہی ہے۔ادارہ بیسیوں مدارس ومساجد کا انتظام وانصرام کررہا ہے جہاں ہزروں طلباء وطالبات زیور تعلیم وتربیت سے آراستہ ہورہے ہیں خصوصاً دارالعلوم نقشبندیہ امینیہ ماڈل ٹائون اے بلاک گوجرانوالہ کے بین الاقوامی اسلامی درسگاہ جامعۃ الازہر کے ساتھ تعلقات مستقل بنیادوں پر استوار ہورہے ہیں۔جو نہایت ہی خوش آئند اور قابل تشکروامتنان امر ہے۔حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مولود مسعود کی خوشی میں مشعل بردار جلوس اپنی مثال آپ ہوتا ہے غرضیکہ ہر مذہبی تہوار نہایت عقیدت واحترام اور تزک واحتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے جن میں نظریاتی بنیادوں اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کا درس دیا جاتا ہے۔

علوم طریقت کی تدوین

اللہ تعالیٰ قادرو حکیم نے اپنی قدرت وحکمت کے تحت اشرف المخلوقات کی تخلیق و تقویم کرکے اسے مافی الضمیر کے اظہار کے لئے قوت گویائی اور قلم وقرطاس سے آشنائی بخشی قرآنی علوم ومعارف اور یزدانی اسرارودقائق کو تحریر وتدوین اور تالیف وترتیب کی لڑی میں پرونا محض فضل ربانی اور عطیہ رحمانی ہے جس کے لئے مخصوص بندوں کا انتخاب واختصاص ہوتا ہے ان منتخب فرمودہ بندوں کی صدق نیت اور خلوص وللہیت کی وجہ سے ان کی تحریر وتصنیف عامۃ الناس کے لئے رشد وہدایت اور اہل دل کے لئے قرب وولایت کا موجب ہوتی ہے اس طرح ان کی ذواتِ مقدسہ اور تصانیف لطیفہ عوام وخواص کے لئے پیغام امن وایقان اور جام علم وعرفان ہوتی ہیں۔بایں وجہ علماء راسخین اور عرفاء کاملین مخلوق خدا کے لئے سبب خیروبرکت اور باعثِ سکون وراحت ہوتے ہیں یوں ان کا کام وکلام الیٰ یوم القیام ان کے دوام کا باعث ہوتا ہے۔ ثم یوضع لہٗ القبول فی الارض

واردات قلبیہ،کیفیات باطنیہ اور مشاہدات ذاتیہ کا ادراک واحساس کر کے انہیں خوبصورت عبارت کا جامہ پہنانا نہایت مشکل کا م ہے۔یہ وہی شخص کر سکتا ہے جو بہت ہی حساس ودراک اور زیرک وفطین ہو ۔علوم دینیہ کا ماہر،طئی سلوک کا مشاق، بلند پایہ صاحب حال اور شرح صدر جیسی قابلیتوں سے مالامال ہو اللہ تعالیٰ نے یہ سب صلاحیتیں اور نعمتیں آپ کی ذات ستودہ صفات میں ودیعت فرمائی تھیں۔

چنانچہ آپ نے مجلہ’’دعوت تنظیم الاسلام‘‘کا اجراء فرماکر تعلیمات مجددیہ کے فروغ واشاعت کے لئے حضرت امام ربانی سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ کی پہلی اُردو شرح ’’البینات شرح مکتوبات‘‘لکھنے کا آغازفرمایا جو بالا قساط ماہنامہ میں شائع ہوتی رہی جو بعد ازاں مرتب ومدون اور مزید حوالہ جات سے مزین کر کے کتابی صورت میںچھپائی گئی۔ چنانچہ آپ کی اس شرح نے اپنوں کو حیران ،بیگانوں کو پریشان اور نادانوں کو پشیمان کردیا۔ قبل من قبل بلاعلۃ

درحقیقت جو کارِخیر اللہ تعالیٰ کے فضل وتوفیق اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کرم وتائید کی مرہون منت ہو ۔ حضرت امام ربانی سیدنا مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے تصرفات باطینہ اور توجہات قدسیہ کا شہکار ہو وہ لائق تحسین وآفرین ہی ہو گا۔ بقول حضرت ابوالبیان نام تمہارا ہوگا…کام ہمارا ہو گا…کا لا جواب مظہر ہوگا۔

معاصرین علماء ومشائخ

آپ حسن ورعنائی اور جذب ودلبرائی کا حسین مرقع تھے آپ کی جاذب نظر شخصیت اور دل آویز سیرت کی وجہ سے ہر کوئی آپ کی ملاقات و زیارت کا خواہاں تھا اس لئے پاکستان کے تقریباً تمام معروف علماء ومشائخ آپ کے ہاں درگاہ حضرت ابوالبیان مرکزی جامع مسجد نقشبندیہ بی بلاک ماڈل ٹائون تشریف لائے اور دیگر حضرات کے ساتھ بیرون ممالک ملاقاتیں ہوتی رہیں۔

چند بزرگان کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں

  • خطیب الاسلام صاحبزادہ سید فیض الحسن رحمۃ اللہ علیہ(آلومہارشریف)
  • شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ(سیال شریف)
  • نقیب اشراف سیدنا طاہر علائوالدین گیلانی رحمۃ اللہ علیہ
  • استاذ العلماء مفتی محمد حسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ(جامعہ نعیمیہ لاہور)
  • حافظ الحدیث سید جلال الدین شاہ رحمۃ اللہ علیہ(بھکھی شریف)
  • مجاہد ملت مولانا عبدالستار نیازی رحمۃ اللہ علیہ(جمعیت علماء پاکستان)
  • قائد ملت اسلامیہ مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ(جمعیت علماء پاکستان)
  • شیخ تصوف مفتی مختاراحمد درانی رحمۃ اللہ علیہ (رحیم یارخان)
  • نبیرہ امام ربانی حضرت شیخ ابوالحسن زید فاروقی مجددی رحمۃ اللہ علیہ
  • افغان عبوری صدر پروفیسر صبغۃ اللہ مجددی (افغانستان)

تحریکی سرگرمیاں

آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے تاہم پھربھی آپ جمعیت علمائے پاکستان ، جماعت اہلسنت اور دیگر کئی مذہبی وسیاسی تنظیموں میں نمایاں عہدوں پرتبلیغی وروحانی خدمات سر انجام دیتے رہے ۔

عرصہ تین سال تک آزاد کشمیرکی سب سے مؤثر دینی اورسیاسی تنظیم جمعیت علمائے جموں وکشمیر کی صدارت کے فرائض بھی انجام دیئے لیکن جلد ہی عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔

دینی مدارس کا قیام

آپ نے۱۹۸۲ء میں جی ٹی روڈ بالمقابل ریگل چائنہ گوجرانوالہ (بطرف لاہور) پانچ ایکڑ اراضی پرمشتمل مرکزی دارالعلوم اہل سنت و جماعت (جامعہ ریاض المدینہ )کی بنیاد رکھی ۔

یہاں نہایت خوبصورت انداز میں تعلیمی نظام شروع فرمایا تودیکھتے ہی دیکھتے تشنگان علم وحکمت اس مادر علمی کی طرف اُمڈ آئے۔ سینکڑوں طلباء زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کےلئےشہر سے باہر اس دارالعلوم میں نہایت ذوق وشوق سے تشریف لے جاتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے۔ نہایت احسن انداز میں یہ علمی سلسلہ قائم ہوامگر بعض جاہ پسند عناصرکےلئے یہ بات بڑی ناگوارتھی کہ دین متین کے اس نظام کی قیادت حضرت ابوالبیان سراج العارفین فرمائیں ؟لہٰذا انہوں نے ہر سطح پر آپ کی زبردست مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ بادل نخواستہ آپ اس نظام سے دست کش ہوگئے مگرمعاندین کی پوری کوشش کے باوجود یہ تعلیمی نظام معطل ہی رہا بالآخر انہیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا کہ یہ نظام چلانا ہمارے بس کا روگ نہیں پھر سالہا سال کے تعطل کے بعد بحمدہٖ تعالیٰ یہ نظام اُنہیں دوبارہ آپ ہی کی زیر سرپرستی دینا پڑا۔ اب یہ جامعہ علوم اسلامیہ و عصریہ کا حسین سنگم ہےجوبڑے احسن انداز میں وارثانِ منبرومحراب کی تعلیم وتربیت کے فرائض سرانجام دے رہاہے۔

گوجرانوالہ ڈویژن میں اہل سنت کی عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم نقشبندیہ امینیہ Aبلاک ماڈل ٹاؤن کے بانی ومہتمم بھی آپ ہی تھے۔

علاوہ ازیں درجنوں مدارس و مساجد اور مذہبی وسماجی تنظیموں کی عمربھرسرپرستی اورمالی معاونت فرماتے رہے۔

تبلیغی کاوشیں

آپ نے دین اسلام کے بنیادی نظریات اور کتاب وسنت کی آفاقی تعلیمات سے عوام الناس کو روشناس کرانے کے لئے ’’مجلس دین ودانش ‘‘کے تحت مختلف دروس قرآن وحدیث وتصوف کا سلسلہ شروع فرمایا جن میںبالخصوص قرآنی سورتوں کا اجمالی تعارف اورمختلف قرآنی مضامین کی تعبیر وتشریح آپ کے موضوع سخن ہوتے تھے۔

دروس احادیث میں خصوصاً شمائل ترمذی کچھ ایسے ایمان افروز اور دل کش انداز میں بیان فرماتے کہ سامعین پررقت کی کیفیت طاری ہوجاتی ۔

کئی مرتبہ بیرونی ممالک (برطانیہ ،آسٹریلیا،ملائیشیا، عراق ،سعودی عرب، ہندوستان وغیرہ) میں تبلیغی وروحانی دورے بھی فرمائے۔

ماشاء اللہ آٹھ مرتبہ حج بیت اللہ اور متعددعمروں کی سعادت بھی آپ کے حصے آئی ۔

قیام حرمین شریفین کے دوران بھی دعوت وارشاد کا سلسلہ جاری رہتاتھا۔

بحیثیت شیخ طریقت

شیخ کامل مکمل نبوت ورسالت کی نیابت وخلافت کے طور پر سالکین کی قلبی تنویر اور باطنی تطہیر کر کے انہیںمنزل آشنا کرتا ہے ۔ ’’نقشبنداں عجب قافلہ سالار انند ‘‘کے مصداق آپ سلوک نقشبندیہ مجددیہ طے کروانے میں بہت مشّاق تھے۔ کئی احباب کو ایک ہی توجہ سے عالم امر اور عالم خلق کے لطائف طے کروا دیئے ۔دیگر سلاسل طریقت کے سالکین بھی آپ سے توجہات قدسیہ اور باطنی رہنمائی حاصل کرتے تھے بلکہ بعض نامور مشائخ بھی آپ سے اسرار طریقت سیکھتے اور روحانی مسائل دریافت کرتے تھے ۔

دروس تصوف

تصوف وطریقت کے نہایت باریک ،لطیف اوردقیق مسائل ومعارف پرشرح و بسط کے ساتھ کلام کرنے اور عامۃ الناس کے قلوب واذھان میں صحیح اسلامی تصوف کواجاگر کرنے کی صلاحیت خصوصی طورپر قدرت نے آپ کو ودیعت فرمائی تھی ۔یہی وجہ تھی کہ آپ قدوۃ الکاملین حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی شہرہ آفاق کتاب مستطاب کشف المحجوب کا مسلسل ۸برس (۱۹۸۹ء تا مئی ۱۹۹۶)تک ہفتہ وار درس ارشاد فرماتے رہے ۔

حضرت امام ربانی مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے خصوصی علوم ومعارف پرمشتمل رسالہ مبارکہ ’’ مبدأومعاد ‘‘ احباب کو سبقاً پڑھایا۔

نیز مکتوبات امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کا تقریباً ربع صدی درس ارشاد فرما یا ۔

البینات شرح مکتوبات

۱۹۸۹ءمیں جب عالمی ادارہ تنظیم الاسلام کے زیر اہتمام ’’ماہنامہ دعوتِ تنظیم الاسلام‘‘ کا اجرا ءہواتوآپ نے تعلیمات مجددیہ کے فروغ واحیاء کے لئے حضر ت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے ’’مکتوبات شریفہ‘‘ کی پہلی اردو شرح ’’البینات ‘‘کے عنوان سے لکھنے کا آغاز فرمایا۔

مکتوبات امام ربانی علوم ومعارف اور حقیقت ومعرفت کا بحرذخارہے جن کے متعلق حضرت العلام سیدعبدالحکیم بن المصطفےٰ الآرواسی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ۔

افضل الکتب الاسلامیۃ بعد کتاب اللہ تعالیٰ وبعد احادیث النبویۃ مکتوبات للامام الربانی لامثل لہٗ فی الاقطار الجہانی

مکتوبات کی شرح یقیناً ایک مشکل ترین کام تھا کیونکہ مکتوبات امام ربانی علیہ الرحمہ کو سمجھنے کے لئے صرف عربی اور فارسی زبان پر عبور اور اصطلاحاتِ تصوف کا جان لینا ہی کافی نہیں بلکہ حضرت مجدد پاک علیہ الرحمہ کے لامحدود مکشوفات ، حقائق ومعارف کوسمجھنے کے لئے اعلیٰ روحانی استعداد کے ساتھ ساتھ بلندیٔ فکرونظر اورعلم کسبی کےعلاوہ علم وہبی کی بھی ضرورت ہے جوکہ خداداد صلاحیت ہے نیز یہ قال کا علم نہیں بلکہ حال کا علم ہے ۔ اس کا تعلق واردات قلبیہ اور مشاہدات ذاتیہ کے ساتھ ہے نیز قلبی واردات وکیفیات اور ذاتی مشاہدات و مکاشفات کاادراک کرکے ان کو الفاظ کی حسین لڑی میںپرونا اور بھی مشکل کام ہے۔ بحمدہٖ تعالیٰ اللہ رب العزّت نے یہ ساری قابلیتیں وصلاحیتیں آپ کی ذات بابرکات میں ودیعت فرمائی تھیں ۔

آپ کے اس کام نے علماء کے علاوہ اخص الخواص کو بھی ورطۂ حیرت میں مبتلا کردیا۔ کچھ نے اس کام کو سراہا اور داد تحسین دی تو کچھ انگشت بدنداں رہ گئے ۔ جب کہ کچھ نے تویہ سمجھا کہ یہ کام زیادہ دیر تک چلنے والا نہیں لیکن جس کام کی بنیاد خلوص وللہیت پر ہو ، جہاں تائید ایزدی اور بزرگوں کی توجہات شامل حال ہوں ، مزید یہ کہ خود حضور مجدد پاک علیہ الرحمہ کی روحانیت ممدومعاون ہوتو ناکامی کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ اس سلسلہ میں آپ خود فرماتے ہیں کہ بارہا ایسا ہوا کہ البینات کے سلسلہ میں کسی مشکل مسئلہ کے حل کی جب کوئی صورت نہ بن پڑتی تو حضور مجدد پاک علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں فاتحہ پڑھ کر متوجہ ہوتا تو اس مسئلہ کا حل معلوم ہوجاتاکبھی القائی طورپر توکبھی یوں کہ اچانک کسی نہ کسی کتاب میں فوراً وہی مسئلہ سامنے آجاتا۔ و للہ الحمد

تصانیف عالیہ

جس طرح آپ نے فن خطابت میں اپنی عظمتوں کا لوہا منوایا اسی طرح آپ میدان تحریر کے بھی شاہسوار تھے ۔ آپ کی تصنیفات جلیلہ ادب و انشاء کاعظیم شاہکار ہیں جن میں تحقیق وتدقیق کے ساتھ ساتھ ایجاز و اختصار اوربرمحل اشعار کااستعمال قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہے۔ ان میں علوم و معارف، حقائق ودقائق، شریعت و طریقت اور حقیقت و معرفت کے دریا بہادیئے گئے ہیں جن کا صحیح ادراک واحساس ان کے مطالعہ وملاحظہ سے ہی ممکن ہے ۔تاحال آپ کی درج ذیل تصانیف منظرعام پر آئی ہیں جبکہ متعدد منصوبہ جات ابھی تشنۂ تکمیل ہیں۔

  • البینات شرح مکتوبات ( مطبوعہ چار جلدیں ،مزید کام جاری ہے )
  • سعادت العباد شرح مبدأومعاد(مکمل دو جلدیں)
  • تذکرہ مشائخ آلومہارشریف
  • مقالات ابوالبیان
  • سرمایہ ملت کا نگہبان
  • آداب الحرمین
  • کلمہ طیبہ اور اس کے تقاضے
  • ایمان اور اس کے ثمرا ت
  • اسلام میں عید میلاد النبی کی حیثیت
  • صلوات الابرار (مجموعہ درودوسلام)
  • قرآنی سورتوں کا اجمالی تعارف (زیر ترتیب)
  • شرح شمائل ترمذی (زیر ترتیب )
  • شرح کشف المحجوب (زیر ترتیب )

وصال باکمال

جملہ سلاسل طریقت کی نسبتوں کے حامل یہ مرد وحیداپنے مشائخ کرام کے تفویض کردہ روحانی وتبلیغی مشن کی تکمیل وتشہیر کے بعد یہ تبلیغی و روحانی نظام اپنے جانشین مکرم مدظلہٗ کے سپرد فرما کر آخرکار 11اگست ۲۰۰۲ء بروز اتوار بمطابق یکم جمادی الثانی ۱۴۲۳ھ کو واصل بحق ہوگئے ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون